تشدد اور موت کے سائے میں جینے والے مشرق وسطیٰ کے لاکھوں رہائشی بھی ایک محفوظ اور پُرسکون زندگی کا خواب دیکھتے ہیں لیکن وہاں گذشتہ ایک سال سے جاری جنگ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جب تک خطے میں موجود گہری سیاسی، سٹریٹیجک اور مذہبی دراڑیں پُر نہیں کی جاتیں امن کے خواب پورے نہیں ہو سکتے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر جیریمی بوؤن کی خصوصی...
تشدد اور موت کے سائے میں جینے والے مشرق وسطیٰ کے لاکھوں لوگ بھی ایک محفوظ اور پُرسکون زندگی کا خواب دیکھتے ہیں لیکن وہاں گذشتہ ایک سال سے جاری جنگ نے ایک بار پھر دِکھا دیا کہ جب تک خطے میں موجود گہری سیاسی، سٹریٹیجک اور مذہبی دراڑیں پُر نہیں کی جاتیں، امن کے خواب پورے نہیں ہو سکتے۔حماس کی جارحیت درحقیقت گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے حل نہ ہونے والے تنازعات کی پیداوار ہے۔ ایک سال قبل 7 اکتوبر کو حماس نے بہت کم دفاع والی سرحد کو عبور کر کے جو حملہ کیا وہ اسرائیلیوں پر کیا جانے والا بدترین حملہ...
مگر وقت کے ساتھ یہ خوش فہمی بھی جاتی رہی جس نے اسرائیل کے لیے پریشان مغربی اتحادیوں کو تسلی دے رکھی تھی۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی رہنماؤں نے اپنے آپ کو یہ باور کرا لیا تھا کہ نتن یاہو کو جنگ کے خاتمے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے حالانکہ وہ اپنی پورے سیاسی کریئر میں اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
حماس کے رہنما یحییٰ سنوار جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ غزہ میں کہیں موجود ہیں، کے اس امن معاہدے سے متعلق اپنے اندازے تھے۔ ایک سال پہلے یقیناً انھیں یہ امید رہی ہو گی کہ ایران کا باقی ماندہ ’محور مزاحمت‘ پوری طاقت کے ساتھ اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل ہو جائے گا لیکن اُن کا یہ اندازہ غلط نکلا۔ اسرائیل نے بوبی ٹریپ والے پیجرز اور ریڈیوز کے دھماکے کیے جن کی مدد سے حزب اللہ کے مواصلات کے نظام کو تباہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد حزب اللہ کے متعدد رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا اور پھر اسرائیل نے جدید جنگی حکمت عملی کے تحت موجودہ دور کی سب سے شدید بمباری میں سے ایک کی مہم شروع کی۔ اس کارروائی کے پہلے ہی دن اسرائیل نے تقریباً 600 لبنانیوں کو ہلاک کیا جن میں بہت سے عام شہری بھی شامل تھے۔
بظاہر ایران نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وسیع جنگ کا خطرہ مول لینے میں اس کی واضح ہچکچاہٹ اسرائیل کو مزید سخت رویہ اپنانے کی ترغیب دے رہی تھی۔ ایران کی جانب سے جوابی حملے میں خطرات تھے کیونکہ یہ طے تھا کہ اسرائیل اس کا جواب دے گا۔ حماس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے اسرائیلی شہریوں کی لاشیں ان کے مکانوں سے نکالی جا رہی تھیں جبکہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے حماس جنگجوؤں کی لاشیں اب بھی ان مکانات کے باغیچوں میں پڑے تھے اور بحیرۂ روم کے اس خطے کی تیز دھوپ سے ان کی نعشیں گل کر سیاہ ہو گئی تھیں۔
ظہر کے ساتھ ساتھ کفار عزہ کے بہت سے دوسرے باشندے اسرائیلی سیاست کے بائیں بازو کے حامی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل میں امن کا واحد موقع فلسطینیوں کو اُن کی آزادی دینا ہے۔ ظہر اور ان کے پڑوسی جیسے اسرائیلی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نیتن یاہو ملک کے لیے ایک تباہ کن وزیراعظم ہیں جو سات اکتوبر کے حملے کے لیے ذمہ دار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجانا ضروری تھا تاکہ انھیں بتایا جا سکے کہ یہاں ایسے لوگ ہیں جن کے پاس ایک وجہ ہے اور ان کے مطالبات ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے اور یہ صہیونی دشمن اسرائیل کے لیے ایک دھچکا تھا۔‘ جنگ کی ابتدا کے دو دن بعد اسرائیل کے وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے کہا کہ انھوں نے غزہ کی پٹی کے ’مکمل محاصرے‘ کا حکم دیا ہے۔
لیکن اس کی ایک اور انسانی قیمت چکائی جا رہی ہے اور وہ نقل مکانی ہے جس میں شہریوں کو بار بار اسرائيلی فوج کی جانب سے نقل مکانی کی ہدایت کی جاتی ہے۔سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح وسطی رفح میں خیمے لگ رہے ہیں اور اکھاڑے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا نمونہ ہے جسے پوری غزہ پٹی میں بار بار دیکھا گیا ہے۔
بی بی سی ویریفائی نے بہت سے نوٹسز کی کلیدی تفصیلات کو ناقابل سمجھ پایا اور متن کے ساتھ جو حدیں کھینچی گئی ہیں ان میں تضاد نظر آيا ہے۔ ’ہم صلاح الدین سٹریٹ پر چل رہے تھے۔ ہمارے سامنے ایک کار کو نشانہ بنایا گيا۔ ہم نے اسے دیکھا، وہ کار جل رہی تھی۔۔۔ بائیں طرف کچھ لوگ مارے گئے تھے اور دائیں طرف جانور بھی مردہ پڑے تھے، گدھے اِدھر اُدھر مرے پڑے تھے۔ ان پر بمباری کی گئی تھی۔‘انصاف اور ان کا خاندان جنگ سے پہلے ایک آرام دہ متوسط طبقے کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک اسرائیل کے حکم پر وہ 15 بار بے گھر ہو چکے ہیں۔ لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی بے سہارا ہیں، اکثر بھوکے رہتے ہیں، ریت کے ٹیلوں کے ویران علاقے المواسی میں ایک...
’میرے دوست اب نہیں ہیں۔ ہماری ساری زندگی مٹی میں بدل گئی ہے۔ جب میں نماز کے لیے باہر جاتا ہوں تو مجھے بے چینی اور جھجک محسوس ہوتی ہے۔ مجھے ٹھیک نہیں لگتا۔‘انھوں نے کہا کہ ’یہ میری زندگی کا مشکل ترین سال رہا ہے۔ ہم نے وہ منظر دیکھے جو ہمیں نہیں دیکھنا چاہیے تھے - بکھری ہوئی لاشیں، اپنے بچوں کے پینے کے لیے پانی کی بوتل لیے ہوئے ایک بوڑھے آدمی کی مایوسی۔ یقیناً، ہمارے گھر اب گھر نہیں رہے۔ وہ صرف مٹی کے ڈھیر ہیں، لیکن ہمیں اُس دن کی امید ہے جب ہم واپس لوٹ سکیں گے۔‘اقوام متحدہ کے اداروں نے اسرائیل...
انھوں نے بتایا کہ ’ہم سمجھتے تھے کہ اسرائیل کی ریاست یہودی تاریخ میں پہلی اور بہترین مدافعتی اور حفاظتی نظام ہے۔ مزید قتل عام نہیں، مزید ہولوکاسٹ نہیں، مزید اجتماعی قاتل نہیں۔ اور اچانک، یہ سب واپس آ گیا۔‘ کئی نسلوں سے جاری تنازعات کے بعد اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے عادی ہیں۔ لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے بھی عادی ہیں، خواہ کتنی ہی تکلیف ہو۔ جب جنگ بندی ہوگی تو نئی نسل کے لیڈروں کے ساتھ امن کے لیے دوبارہ آگے بڑھنے کے امکانات ہوں گے۔
اُدھر امریکی انتخابات بھی قریب ہیں جبکہ اسرائیل کے لیے جو بائیڈن کی حمایت جاری ہے اگرچہ وہ اسرائیل کے لڑنے کے طریقے کے بارے میں بدگمان ضرور ہیں۔ یہ صورتحال ایسی امید پیدا نہیں کرتی کہ امریکہ کسی نہ کسی طرح اس جنگ سے نکلنے کا راستہ نکال لے گا۔ جو بائیڈن کا کردار، ہتھیاروں، سفارتکاری اور فوجی سازوسامان کے ذریعے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے بیک وقت اسے روکنے کی کوشش کرنا، امریکیوں کو ایران کے ساتھ وسیع جنگ میں ملوث ہونے سے نہیں بچا رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو، لیکن بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ضروری ہوا تو وہ اسرائیل کی مدد کے لیے آگے آئیں گے۔
Indonesia Berita Terbaru, Indonesia Berita utama
Similar News:Anda juga dapat membaca berita serupa dengan ini yang kami kumpulkan dari sumber berita lain.
غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی فوری ضرورت ہے، امریکی صدرمشرق وسطیٰ میں جنگ کا پھیلاؤ کسی کے حق میں نہیں، جو بائیڈن کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے بطور امریکی صدر آخری خطاب
Baca lebih lajut »
قتل کے جرم میں غلط سزا، عدالت کا انتظامیہ کو متاثرہ شخص کو 50 ملین ڈالر دینے کا حکم34 سالہ مارسل براؤن کو سال 2008 میں شکاگو میں ہونے والے ایک قتل کے الزام میں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے جھوٹا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا
Baca lebih lajut »
’منظوری تو دور اسمبلی میں پیش کرنے کی جرات بھی نہیں ہوگی‘، علی امین کی آئینی ترامیم کی کھل کر مخالفتیہ آئینی ترامیم جمہوریت پر حملہ ہے اور ہم اس کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، انہوں نے سوچا کیسے یہ جمہوریت کے ہوتے ہوئے ایسا بل لائیں گے: علی امین گنڈاپور
Baca lebih lajut »
سابق اسرائیلی وزیراعظم نے میزائل حملے کے جواب میں ایران پر حملے کا مطالبہ کردیاپچھلے 50 سال میں اسرائیل کو پہلی مرتبہ بہت ہی بڑا موقع ہاتھ لگا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کا چہرہ تبدیل کر سکتا ہے: نفتالی بینیٹ سابق اسرائیلی وزیراعظإ
Baca lebih lajut »
مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنے کا خواب اور اسرائیل کیلئے تاریخ کا سبقحالیہ تاریخ اسرائیلی رہنماؤں سمیت ان سب کے لیے کچھ تلخ اسباق لیے ہوئے ہے جو مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔
Baca lebih lajut »
پاکستان کا مشرق وسطیٰ میں جنگی صورتحال کا خاتمہ، تنازعات کے حل پر زوراسرائیل نے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنگین انسانی بحران جنم دیاہے، ترجمان دفترخارجہ
Baca lebih lajut »